EN हिंदी
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر | شیح شیری
phul barsao shahidan-e-watan ki KHak par

نظم

پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر

تلوک چند محروم

;

جن سر افرازوں کی روحیں آج ہیں افلاک پر
موت خود حیراں تھی جن کی جرأت بے باک پر

نقش جن کے نام ہیں اب تک دل غم ناک پر
رحمت ایزد ہو دائم ان کی جان پاک پر

پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
پھول برساؤ کہ پھولوں میں ہے خوشبوئے وفا

تھی سرشت پاک ان کی عاشق جوئے وفا
موت پر ان کی گئے جو روئے‌ در روئے وفا

کیوں نہ ہوں اہل وطن کے اشک خوں جوئے وفا
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر

تھے وہ فخر آدمیت افتخار زندگی
تھے وہ انساں طرۂ تاج وقار زندگی

ان کے دم سے تھا چمن یہ خار زار زندگی
تھا نفس ان کا نسیم خوشگوار زندگی

پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
چشم ظاہر بیں سمجھتی ہے کہ بس وہ مر گئے

در حقیقت موت کو فانی وہ ثابت کر گئے
جو وطن کے واسطے کٹوا کے اپنے سر گئے

خوں سے اپنے رنگ تصویر وفا میں بھر گئے
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر

دیکھ لینا خون ناحق رنگ اک دن لائے گا
خود غرض ظالم کئے پر اپنے خود پچھتائے گا

راہ پر دور زماں آخر کبھی تو آئے گا
آسماں اس خاک کی تقدیر کو چمکائے گا

پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر