ستارے
اب نمو کی آگ مدھم ہوتی جاتی ہے
ہوا میں نکہتوں کی تازگی کم ہوتی جاتی ہے
چمکتے باغیوں کی جھاگ مدھم ہوتی جاتی ہے
ستارے
خاک میں روئیدگی کم ہوتی جاتی ہے
مگر وہ پھول تو یکتا تھا
ان سارے گلابوں میں
اسی کا عکس تھا
میرے لہو میں میرے خوابوں میں
ستارے
روح میں اس کا نشاں
اب کیوں نہیں ملتا
ستارے
میرے پہلو میں وہ گل اب کیوں نہیں کھلتا
نظم
پھول اور ستارا
شبیر شاہد