پھر وہی خواب نما
شب کے سرابوں کا چلن جاری ہے
شب کہ اس بار صفیران چمن
اور بھی کچھ بھاری ہے
گل پہ شبنم پہ عنادل پہ
صبا اور ہوا سب پہ
وہی سحر الم طاری ہے
پھر اسی طرز کہن
میں نیا انداز فسوں کاری ہے
سخت مشکل میں ہیں
اے جان وفا ارض وطن
حرف مقصود رقیبوں کو گوارہ بھی نہیں
کیا کریں صبر کا یارا بھی نہیں
کیسے تعمیر کی تزئین کی پھر بات کریں
خون دل نذر گرانبارئ اوقات کریں
ہم تہی دست جو آہوں میں اثر مانگتے ہیں
سبز و شاداب حسیں خلد نظر مانگتے ہیں
اپنی مجبور تمنا کا نگر مانگتے ہیں
ایک بے داغ سحر مانگتے ہیں!!
نظم
پھر وہی شب کے سرابوں کا چلن!
اختر ضیائی