دل فسردہ کو اب طاقت قرار نہیں
نگاہ شوق کو اب تاب انتظار نہیں
نہیں نہیں مجھے برداشت اب نہیں کی نہیں
خدا کے واسطے کہنا نہ اب کی بار ''نہیں''
ہمیشہ وعدے کیے اب کے مل ہی جا آ کر
حیات و وعدہ و دنیا کا اعتبار نہیں
دکھائی اپنی محبت کو چیر کر سینہ
مگر نمود مرا شیوہ و شعار نہیں
مری بہن مری محبوبہ حب عجب شے ہے
جہان خاک نہیں کچھ جو دوست دار نہیں
نظم
پیام
ز خ ش