پرندہ جو ہونٹوں پہ پر تولتا تھا
اسے باز رکھنے کی خاطر اک آسیب تھا میرے در پے
قد اس کا فلک ناپتا تھا
نگاہیں اٹھاؤ جو چہرے کی جانب
تو گھٹنے سے اٹکیں
مجھے اس نے مہرے کی صورت اٹھایا
اور اک سوئمنگ پول میں لا کے ڈالا
وہ یہ چاہتا تھا کہ پانی میں یہ آگ بھڑکانے والی حسیں مچھلیاں
مجھ کو رنگوں میں اپنے جکڑ لیں
مرے خوں میں یہ آتش رنگ بھر کر
مجھے بھسم کر دیں
مگر جب نہ ہو پایا ایسا
تو اس نے مجھے اک پہاڑی گپھا میں اتارا
جہاں سیم و زر کا اک انبار سا تھا
اس انبار میں کھل جا سم سم کی یاد آئی
چالیس چوروں کی دہشت در آئی
مجھے اس نے قاسم کی صورت میں دیکھا تھا
اس کو یقیں تھا
چکا چوند زر کی مجھے دشت نابود کی راہ پر ڈال دے گی
مگر جب نہ ہو پایا ایسا
تو اس نے مری اک کف دشت پر چاند اور دوسری پہ
رکھا لا کے سورج
اور خود اپنی ٹانگوں سے اے اور وی انگلیوں سے بنا کر
عجب طنطنے سے کھڑا تھا
مرے ہاتھ نے اس کی وی پر یہ چاند اور سورج اچھالے
چھناکا ہوا زور کا میں نے دیکھا زمیں پر
یہ چاند اور سورج شکستہ تھے
اور ہونٹ کے مستقر سے
پرندہ فضاؤں کے آغوش میں تیرتا تھا
زمیں آسماں کے قلابے ملاتا ہوا دیو آسیب
قد میں
مری اونچی گردن کے جوتے کے ہمسر ہوا تھا
نظم
پرندے
ادیب سہیل