پرندہ آسماں کی نیلگوں محراب کے اس پار جاتا ہے
پرندہ بال و پر ہے آنکھ ہے لیکن
سنہری چونچ سے پرواز کرتا ہے
سڑک پر دھوپ ہے اور دھوپ میں سایوں کے ناخن ہیں
گھروں میں خول ہیں اور آنگنوں میں خار اگتے ہیں
کسی کا کون ہے کوئی نہیں سب اجنبی ہیں حیرت و حسرت میں زندہ ہیں
وہ عورت ہے
وہ خواہش کے لپکتے خنجروں سے پیار کرتی ہے
وہ اس کا ہم سفر ہے خاک و خوں اس کا مقدر ہے
یہ موج آب ہے اب پھول ہے اب پیڑ ہے کل صرف پتہ ہے
اگر یہ زندگی کرنے کی کوشش میں پریشاں ہیں
یہ اکثر قتل کرتے ہیں
یہ اکثر قتل ہوتے ہیں
لہو کے پار گلشن ہے مگر گلشن لہو میں ہے
نگاہوں میں اجڑتے شہر کی مانند تصویروں کا میلہ ہے
ہجوم سنگ و آہن میں
کوئی آواز دیتا ہے کوئی آواز سنتا ہے
مگر آواز سے آواز کا رشتہ نہیں ہوتا
مگر آواز سے آواز کا ہر ہر سلسلہ بے کار ہوتا ہے
یہ منظر تیرتا ہے آب جو میں ہائے لیکن اجنبی کیوں ہے
میں منظر ہوں تسلسل ہوں
مگر میں اجنبی کیوں ہوں
یہ فرش آب و گل میرے لیے اک سلسلہ کیوں ہے
پرندہ آسماں کی نیلگوں محراب کے اس پار چاہتا ہوں
پرندہ فاصلہ کیوں ہے
پرندہ ماورا کیوں ہے
نظم
پرندہ
بلراج کومل