وہ پریشان ہے
میری نظروں کو اپنے بدن سے لپٹتے چمٹتے ہوئے دیکھ کر
کتنی بے چین ہے
صندلیں جسم پر گویا لپٹے ہوئے سانپ ہی سانپ ہوں
اور میں
اس کے ہر انگ پر
اپنی نظریں جمائے ہوئے
سر بسر آنکھ ہوں
زیر و بم زیر و بم پیچ و خم پیچ و خم
ساق زانو جبیں پشت سر تا قدم
میری لیزر شعاعوں کے اس جال میں
زلف سینہ کمر پورا اکویریم
پیرہن جلد اور گوشت کے پار کا سارا احوال بھی
جانتا ہوں اسے بھی یہ معلوم ہے
جانتی ہے کہ ہم ہیں بہم تک ملے پھر بھی وہ کیوں پریشان ہے
نظم
پریشانیٔ دید
عمیق حنفی