ڈائری کے یہ سادہ ورق
اور قلم چھین لو
آئینوں کی دکانوں میں سب
اپنے چہرے لیے
اک برہنہ تبسم کے محتاج ہیں
سرد بازار میں
ایک بھی چاہنے والا ایسا نہیں
جو انہیں زندگی کا سبب بخش دے
دھند سے جگمگاتے ہوئے شہر کی بتیاں
سجدہ کرتی ہوئی کہکشاں
خوبصورت خداؤں کی پھرتی ہوئی ٹولیاں
ایسا لگتا ہے سب
ایک مدت سے پرچھائیوں کو پکڑنے میں مصروف ہیں!!!
نظم
پرچھائیاں پکڑنے والے
آشفتہ چنگیزی