پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے
جلا وطنوں کے پاؤں کے تلے
دھرتی بڑی کمزور ہوتی ہے
کبھی رستہ نہیں ہوتا
کبھی سایہ نہیں ہوتا
شجر کی آرزوئیں دھوپ کے آنسو بہاتی ہیں
مگر بارش نہیں ہوتی
پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے
دعائیں گٹھریوں میں باندھ کر
چوکھٹ پہ بیٹھی
ماؤں کے پتھر وجودوں پر
کبھی مٹی نہیں ہوتی
کبھی سبزہ نہیں اگتا
پرندے اور پردیسی
اگر واپس کبھی آئیں تو
سارے لوک گیتوں داستانوں
اور مٹی میں امانت کی ہوئی آنکھوں کو
اپنے ساتھ لے جائیں!

نظم
پنچھی تے پردیسی.....
بشریٰ اعجاز