EN हिंदी
پل بھر کا بہشت | شیح شیری
pal bhar ka bahisht

نظم

پل بھر کا بہشت

سرمد صہبائی

;

ایک وہ پل جو شہر کی خفیہ مٹھی میں
جگنو بن کر

دھڑک رہا ہے
اس کی خاطر

ہم عمروں کی نیندیں کاٹتے رہتے ہیں
یہ وہ پل ہے

جس کو چھو کر
تم دنیا کی سب سے دل کش

لذت سے لبریز اک عورت بن جاتی ہو
اور میں ایک بہادر مرد

ہم دونوں آدم اور حوا
پل کے بہشت میں رہتے ہیں

اور پھر تم وہی ڈری ڈری سی
بسوں پہ چڑھنے والی، عام سی عورت

اور میں دھکے کھاتا بوجھ اٹھاتا
عام سا مرد

دونوں شہر کے
چیختے دہاڑتے رستوں پر

پل بھر رک کر
پھر اس پل کا خواب بناتے رہتے ہیں