EN हिंदी
پہلی موت | شیح شیری
pahli maut

نظم

پہلی موت

محمود ایاز

;

رات بھر نرم ہواؤں کے جھونکے
وقت کی موج رواں پر بہتے

تیری یادوں کے سفینے لائے
کہ جزیروں سے نکل کر آئے

گزرا وقت کا دامن تھامے
تری یادیں ترے غم کے سائے

ایک اک حرف وفا کی خوشبو
موجۂ گل میں سمٹ کر آئے

ایک اک عہد وفا کا منظر
خواب کی طرح گزرتے بادل

تیری قربت کے مہکتے ہوئے پل
میرے دامن سے لپٹنے آئے

نیند کے بار سے بوجھل آنکھیں
گرد ایام سے دھندلائے ہوئے

ایک اک نقش کو حیرت سے تکیں
لیکن اب ان سے مجھے کیا لینا

میرے کس کام کے یہ نذرانے
ایک چھوڑی ہوئی دنیا کے سفیر

میرے غم خانے میں پھر کیوں آئے
درد کا رشتہ رفاقت کی لگن

روح کی پیاس محبت کے چلن
میں نے منہ موڑ لیا ہے سب سے

میں نے دنیا کے تقاضے سمجھے
اب مرے پاس کوئی کیوں آئے

رات بھر نوحہ کناں یاد کی بپھری موجیں
میرے خاموش در و بام سے ٹکراتی ہیں

میرے سینے کے ہر اک زخم کو سہلاتی ہے
مجھے احساس کی اس موت پر سہہ دے کر

صبح کے ساتھ نگوں سار پلٹ جاتی ہے