سرد یخ بستہ موسموں کی نوید
جانے کس کس کے نام آئی تھی
کہر آلود تھی فضا ایسی
صبح کچھ اونگھتی ہوئی جاگی
اس کی آغوش سے ہمکتا ہوا
ایک سورج قلانچیں بھرتا ہوا
آسمان فسوں کے میداں میں
شوخ کرنوں کو چھیڑتا نکلا
ہو گیا خطۂ افق گل رنگ
میں تھا محبوس اپنے کمرے میں
دفعتاً دیکھتا ہوں نور کریم
ہے کھڑا یاد کے دریچے پر
چند معصوم سا سوال لیے
جھانکتا ہے ادھر ادھر ششدر
دوسرا منظر
یاد ہے فروری مہینہ تھا
نو شگفتہ نئی بہار کے دن
فیس بک پر ملے تھے جب دونوں
اس نے کی التجا رفاقت کی
میں نے ہنس کر اسے قبول کیا
گرم شعلہ تھا اس کو پھول کیا
اس نے دل کا سلام بھیجا تھا
میں نے جاں کا پیام بھیجا تھا
نظم
پہلا منظر
خورشید اکبر