ایشیا کی اس ویران پہاڑی پر
موت ایک خانہ بدوش لڑکی کی طرح
گھوم رہی ہے
میری روشنی
اور انار کے درختوں میں
قزاقوں کے چاقو چمکتے ہیں
اور سر پر وہ چاند ہے جو اس
پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے
اس پہاڑی پر فاطمہ رہتی ہے
اس کے کپڑوں میں وہ کبوتر ہیں
جو کبھی اڑ نہیں سکتے
خدا نے ہمیں ایک غار میں
بند کر دیا ہے اور ہمارے سروں پر
سیاہ رات جیسا پتھر رکھ دیا ہے
نظم
پہاڑی کی آخری شام
قمر جمیل