چلتے ہوئے اس پگڈنڈی پر
جب سامنے پیڑ آ جاتے تھے
ہوتا ہے گماں حد آ پہنچی
کہتے تھے قدم اب لوٹ چلو
اب لوٹ چلو اس راہ پہ جس سے آئے تھے
کچھ دور پہ جا کر لیکن یہ مڑ جاتی تھی
پیڑوں کی صفوں میں تیزی سے گھس جاتی تھی
بکھرے ہوئے پتے اوس میں تر
چھنتی ہوئی کرنوں کا سونا
چپ چاپ فضاؤں کی خوشبو
ناگاہ کسی طائر کے پروں کی گھبراہٹ
ہم آ گئے ان میدانوں میں
پھیلے ہوئے میداں اور افق کی پہنائی
اب آؤ یہاں سے گھر لوٹیں
چلتے ہوئے اس پگڈنڈی پر
نظم
پگڈنڈی
منیب الرحمن