EN हिंदी
پاس کے شہر میں فساد | شیح شیری
pas ke shahr mein fasad

نظم

پاس کے شہر میں فساد

اختر یوسف

;

پاس کے شہر سے کرفیو کی بے آواز چاپ
دھیرے دھیرے

مرے شہر کی گلیوں اور چوراہوں تک آ پہنچی ہے
رات کی طرح خوف پھیلا ہے

دروازے کھڑکیاں چپ
کتے بھی چپ

ہراساں دور دور تک سڑکوں کو تکتے ہیں
پھر روتے ہیں

پاس کے شہر میں نعرے ابھرتے ہیں
ایک ہی ساتھ جیسے ڈھیر سارے بکروں کی گردنوں پہ

دھار دار چاقو تیرتے ہیں
پیڑوں پہ چاندنی ستمبر کی سہمی ہے

تنہا پرندے کے ہیرا جیسے دل میں بلے کی لہو لہو آنکھ ڈوب کر ابھرتی
سناٹا زمیں کا آکاش سے جا ملا ہے

گھوڑوں کی آگ اگاتی ٹاپ پاس کے شہر میں اور
اپنے شہر میں آ گیا بیتال پٹرول پمپوں کے پاس کھڑا ہے

رات کی طرف خوف پھیلا ہے سانکل ہلاتا ہے
چاندنی ستمبر کی پیڑوں پہ روتی ہے

بلے کی لہو لہو آنکھ اور پرندہ
بیچارہ