EN हिंदी
پانی میں گم خواب | شیح شیری
pani mein gum KHwab

نظم

پانی میں گم خواب

نصیر احمد ناصر

;

خواب اور خواہش میں
فاصلہ نہیں ہوتا

عکس اور پانی کے
درمیان آنکھوں میں

آئینہ نہیں ہوتا
سوچ کی لکیروں سے

شکل کیا بناؤ گے
درد کی مثلث میں

زاویہ نہیں ہوتا
بے شمار نسلوں کے

خواب ایک سے لیکن
نیند اور جگراتا

ایک سا نہیں ہوتا
جوہری نظاموں میں

نام بھول جاتے ہیں
کوڈ یاد رہتے ہیں

ایٹمی دھماکوں سے
تابکار نسلوں کے

خواب ٹوٹ جاتے ہیں
شہر ڈوب جاتے ہیں

مرکزے بکھرتے ہیں
دائرے سمٹتے ہیں

رقص کے تماشے میں
ارض و شمس ہوتے ہیں

اور خدا نہیں ہوتا
صد ہزار سالوں میں

ایک نور لمحے کا
ٹوٹ کر بکھر جانا

حادثہ تو ہوتا ہے
واقعہ نہیں ہوتا

ہسٹری تسلسل ہے
ایک بار ٹوٹے تو

دوربیں نگاہیں بھی
تھک کے ہار جاتی ہیں

گمشدہ زمینوں سے
منقطع زمانوں سے

رابطہ نہیں ہوتا
ننھے منے بچوں کے

نوبہار ہاتھوں میں
پھول کون دیکھے گا

آنے والی صدیوں میں
تیری میری آنکھوں کے

خواب کون دیکھے گا
زیر آب چیزوں کا

کچھ پتا نہیں ہوتا!