EN हिंदी
پاگل عورت | شیح شیری
pagal aurat

نظم

پاگل عورت

صہبا اختر

;

ایک جوان سی اور دیوانی عورت کو
میں نے سڑک پر اکثر گھومتے دیکھا ہے

گاہ کسی سائے کی طرف مصروف خرام
اور کبھی وحشت میں جھومتے دیکھا ہے

اس کی سرخ آنکھوں میں پاگل پن کے سوا
اور بھی کچھ ہے جس کا کوئی نام نہیں

اک ایسی بیداری اس پر طاری ہے
جس کے مقدر میں اب کوئی شام نہیں

اس کے پتھر جیسے چپ چپ چہرے پر
اک سنگین اداسی ناچتی رہتی ہے!

اس کی سوئی سوئی گہری پلکوں میں
راتوں کی تاریکی جاگتی رہتی ہے!

اس کے ماتھے پر بکھری زلفوں کا دھواں
جیسے ختم نہ ہونے والا چاند گہن

کیا جانے کس آنکھ سے ٹوٹا تارا ہے
کیا جانے کس سورج کی آوارہ کرن

کیا جانے کس کی بیٹی ہے کس کی بہن
کیا جانے کس باپ کا دل کس ماں کا نور

ایک بگولہ اپنے ویرانے سے جدا
ایک بھٹکتی روح اپنے مرقد سے دور

وہ فٹ پاتھ پہ اور کبھی شہراہوں پر
کیا جانے کس دھن میں تنہا پھرتی ہے

شب کو آخر بار مسافت سے تھک کر
کیا جانے کس گوشے میں جا گرتی ہے

کوئی شریعت جس سے نہیں لے سکتی حساب
جس کا دل نیکی سے خالی ہے

جانے کس سگ زادہ خباثت کے ہاتھوں
اب وہ بچے کی ماں بننے والی ہے!