اک بھکاری کی مانند
اک پیڑ ویران سے راستے پر کھڑا ہے
کوئی بھولا بھٹکا مسافر جو گزرے کبھی
ایک پل کو رکے
نرم چھانو میں دم لے ذرا
اور چلتا بنے
رہ گزر پر وہ بے آسرا پیڑ چپ چاپ تکتا رہے
اپنے دامن کو پھیلائے
ہر جانے والے مسافر کو شاخیں پکاریں
مگر کون آئے

نظم
پا بہ گل
سلیم الرحمن