مذہب کا آکٹوپس
پکڑ لیتا ہے فرد کو
اس کے بازو پھیل جاتے ہیں
ہر مسام ہر عضو پر
یہ حاوی ہو جاتا ہے
ہر ہر سانس پر
عفریت بن کر نگل لیتا ہے
جذبات کے ریشمی تھانوں کو
مسل کر رکھ دیتا ہے
دل سوختہ کی ہر خواہش کو
سلیں رکھ دیتا ہے دل نازک پر
اوپر سے نیچے تک
بے شمار بے حساب
جو مچلے شکار اس کا
اور سخت ہو جاتی ہے
گرفت اس کی
ذرا سی کشادگی بھی نہیں بھاتی اس کو
محبت کی سادگی
کہاں پسند آتی ہے اس کو
اس کی قمچی ہر وقت برسنے کو تیار ہے
جذبات کے کھیل میں
فرد کا احساس
کیوں ہے قابل اعتراض
نظم
آکٹوپس
نادیہ عنبر لودھی