EN हिंदी
نوح کے بعد | شیح شیری
nuh ke baad

نظم

نوح کے بعد

سحر انصاری

;

نقطۂ صفر پر وقت کا پاؤں تھا
زد میں سیلاب کی جب ہر اک گاؤں تھا

نوح نے اپنی کشتی کو تخلیق کی
جملہ انواع سے بھر لیا

ربع مسکوں کے سیلاب پر اپنی کشتی لیے
کوہ جودی کی چوٹی کو سر کر لیا

نوح کے واسطے جس پرندے کی منقار میں
برگ زیتون تھا

وہ امید مسلسل کا قانون تھا
ہم جو کشتی سے اور برگ زیتون سے

کوہ جودی سے محروم ہیں
مبتلا ہم کو اس امتحاں میں کیا کس لیے

اتنی لاشوں مکانوں کے ملبوں
اکھڑتے درختوں سسکتے پرندوں

شکستہ بدن ریوڑوں کو
کہاں لے کے جائیں

ہم تو سیلاب سے قبل بھی
مستقل ایک سیلاب کی زد میں ہیں

بھوک افلاس بیماریاں
ظلم ناداریاں

بد دیانت شبوں کی سیہ کاریاں
ایک پر ہول سیلاب سے کم نہیں

گردش روز و شب سے نکلتے ہوئے
نوح نے راہ پالی تھی جینے کی خاطر

اور طوفان بھی رک گیا تھا سفینے کی خاطر
اب ہمارے لیے کوئی مرکب نہیں

کوئی کشتی نہیں
جس کے بل پر کہیں پار اتر جائیں ہم

نقطۂ صفر پر وقت کے پاؤں کی طرح
اک پل ٹھہر جائیں ہم

جب یہ کچھ بھی میسر نہیں ہے تو پھر
ہم کو فطرت کے قانون اب آزماتے ہیں کیوں

نوح کے بعد طوفان آتے ہیں کیوں