کچی دیوار سے گرتی ہوئی مٹی کی طرح
کانپ کانپ اٹھتا ہے برباد محبت کا وجود
حسرتیں سوت کے دھاگوں کی طرح نازک ہیں
درد کی کوڑیاں کس طرح بندھیں گی ان میں
کون گھٹنوں میں لئے سر کو اکیلا تنہا
روز روتا ہے مرادوں کے حسیں منڈپ میں
کتنی ویران ہے اجڑے ہوئے خوابوں کی منڈیر
بھولی بسری ہوئی یادوں کے پپیہے چپ ہیں
ہائے کیا شام تھی وہ شام وہ دیہات کی شام
میری آنکھوں میں دھنک جھول گئی پنگھٹ پر
اور جب جھوم کے الغوزہ اٹھایا میں نے
چاندنی اپنا گھڑا بھول گئی پنگھٹ پر
نیند کے نشے میں لہرانے لگیں مٹیاریں
اپنی ہی بانہوں میں بل کھانے لگیں مٹیاریں
میرے الغوزے کی ہر تان سے پگھلا ترا روپ
میرے ہر گیت سے برسی کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
کون برسوں کی بجھی راکھ کریدے اے دوست
گاؤں سے دور کسی اجنبی رہرو کی طرح
شب کی تنہائی کے جنگل میں گھرا بیٹھا ہوں
دل میں زخموں کے سلگتے ہوئے کچھ نقش لئے
ایک دھندلا سا تصور ہے کسی سپنے کا
ورنہ ہر لمحۂ سیال مجھے یاد نہیں
تیری صورت تو بہت دیر ہوئی بھول گئی
اب تو اپنے بھی خط و خال مجھے یاد نہیں
نظم
نقوش
پریم واربرٹنی