وقت کبھی ٹھہرتا نہیں
سمندر کی لہروں کی طرح
متواتر چلتا رہتا ہے
لیکن
تاریک دلدل میں پھنسے ہوئے لمحے
ان ساعتوں کا ارتعاش
چند ثانئے کے سرگم کے سائے
تمام عمر روح میں پیوست ہو کر
انسان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں
رحم مادر کی شریانیں جیسے
بحریں موجوں کے مہیب سائے کی طرح
مکین رحم کے ننھے وجود کو
ڈھونڈھتی ہیں بار بار
مڑ مڑ کے پیچھے دیکھتی ہیں اشک بار
مگر
گزرا ہوا لمحہ باد نسیم کا اک جھونکا
آتا نہیں دوبارہ
کبھی ٹھہرتا نہیں ہے آب رواں
ٹھہرتی ہیں تو صرف یخ بستہ یادیں اور
چند ثانئے کے لیے
تاریک دلدل سے مسلسل
بر آمد ہونے والا
سات سروں کا سرگم

نظم
نوستالجیا
پرویز شہریار