مری سانس کا سلسلہ
ایسے ٹوٹے کہ اک مست جھونکے کے مانند گرتی لڑھکتی ہوئی عمر میری
ہری لانبی مخمل سی خوشبو بھری گھاس میں
اپنے ننگے بدن کو اتارے
نہ آنسو گرائے نہ دامن پسارے
فقط ہاتھ کے الوداعی اشارے سے
اپنے تعاقب میں آتے پرندوں کو رخصت کرے
اور خود گھاس کی جھیل میں ڈوب جائے
مری سانس کا سلسلہ
یوں نہ ٹوٹے کہ اک تند جھونکے کے مانند اڑتی ہوئی عمر میری
کسی بند اجڑے ہوئے شہر میں دفعتاً خود کو پائے
بھیانک خموشی کا اک ڈولتا قہقہہ
اس کی رگ رگ میں اترے تو وہ بوکھلائے
قطاروں میں لیٹی ہوئی مردہ گلیوں میں بھٹکے
مکانوں میں اترے منڈیروں پہ آئے
سیہ چھوٹی اینٹوں کی فرسودہ دیوار کو اپنی پوروں سے چھو کر
کوئی در ڈھونڈے کوئی راہ مانگے
اچانک کسی سرد کھمبے کی بے نور آنکھوں سے جھانکے
بڑے کرب سے گڑگڑائے
خدارا کوئی مجھ کو باہر نکلنے کا رستہ بتائے
خدارا کوئی مجھ کو باہر نکلنے کا رستہ بتائے

نظم
نروان
وزیر آغا