EN हिंदी
نروان | شیح شیری
nirwan

نظم

نروان

طاؤس

;

میں کپل وستو کا شہزادہ نہیں
دردمندی کی ہوس

نروان کی خواہش
کبھی دل میں سمائی بھی نہیں

میں کہ برگد کے تقدس سے بھی تھا نا آشنا
اور آج بھی

چھاؤں کی حد تک درختوں سے ہے میری دوستی
میں اک ایسا طفل مکتب تھا

ذرا سی بھول پر جو سرزنش کے خوف سے
جنگل کی جانب چل پڑے

راہ میں کچھ ہم سفر ایسے ملیں
جو اسے ودیارتھی سمجھیں

کچھ ایسے لوگ بھی
جو اسے سہمی ہوئی سی چور نظروں کے سبب

مشترک دشمن کا اک جاسوس سمجھیں
اور اشاروں میں کہیں

یہ کپل وستو کا شہزادہ نہیں
کیا خبر شاید منو جی کا کوئی چیلا ہو

یا پھر چانکیہ جی کا کوئی مخبر نہ ہو
یوں امید و بیم کا سرحد کے گہرے درمیانی فاصلے کو

میں نے مشکل سے اندھیری رات میں طے کر لیا
اور شاردا کے کھنڈروں تک آ گیا

جب سحر ہونے کو تھی
میں شاردا کے کھنڈروں سے چل دیا

شاردا کا پل مرے قدموں میں تھا
تب سپاہی کا پکارا کون ہے

یوں وصال صبح کا ارماں فراق صحبت شب بن گیا
خود فریبی اور خوش فہمی کے سارے راستے مسدود ہو کر رہ گئے

دھیان نے جب دل کو سمجھایا سپاہی کون تھا
اب میں قطعاً گیان اور مکتی کا دل دادہ نہیں

میں کپل وستو کا شہزادہ نہیں