جسم کے راستوں سے گزر کر
مطمئن نفس کی آرزو میں
جو بھی نکلا وہ واپس نہ آیا
روح کی وحشتوں میں الجھ کر
مطمئن نفس کی آرزو میں
جو بھی نکلا وہ واپس نہ آیا
لوگ پھر دیکھتے کیوں نہیں ہیں
لوگ پھر سوچتے کیوں نہیں ہیں
لوگ پھر بولتے کیوں نہیں ہیں
نظم
نروان
افتخار عارف