خواب کے راستے میں
ہوا کا لگایا ہوا
ایک درخت سو رہا ہے
درخت کے نیچے
رات کی بارش سے
زمین ابھی تک بھیگی ہوئی ہے
آسمان
چھپا ہوا ہے بادلوں میں
اور پانی کے قطرے
گر رہے ہیں
اس کی آنکھوں پر
میرے بغیر
وہ چلنا شروع کر دی ہے
ایک آئینے کے سامنے
اور گر پڑتی ہے
خود کو دیکھتے ہوئے
ایک سٹریچر پر
جسے استقبالیہ کاؤنٹر سے
واپس کر دیا جاتا ہے
نظم
نیند
ذیشان ساحل