EN हिंदी
نیچے کی اور | شیح شیری
niche ki or

نظم

نیچے کی اور

مظفر حنفی

;

وقت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہوں
میرے چاروں اور گدلی لجلجی یادوں کی تہہ ہے

سر پہ بیتی عمر کے ٹوٹے ہوئے لمحوں کا بوجھ
اس سفر کی ابتدا کیسے ہوئی تھی

یہ خبر مجھ کو نہیں
یاد بس اتنا ہے

میرے والد مرحوم کچھ اوپر ہی مجھ سے رہ گئے تھے
انتہا کیا ہے سفر کی

کون جانے
سانس کا ہر تازیانہ

مجھ کو نیچے اور نیچے کی طرف ہی کھینچتا ہے
جانے میں تہہ تک بھی پہنچوں گا

کہ والد کی طرح
اپنے بچوں کو بھی دھنسنے کے لیے کہہ جاؤں گا

وقت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہوں