نئی تہذیب کے شہکار عظیم!
تیری پر کیف و طرب خیز فضاؤں کو سلام!
کتنے نوخیز و حسیں جسم یہاں چاروں طرف
رقص میں محو ہیں عریانی کی تصویر بنے
اپنی رعنائی و زیبائی کی تشہیر بنے
ساز پرجوش کی سنگت میں تھرکتے جوڑے
فرش مرمر پہ پھسلتے ہیں بہک جاتے ہیں
دوڑتی جاتی ہے رگ رگ میں شراب گلفام
نئی تہذیب کے شہکار عظیم!
تیری پر کیف و طرب خیز فضاؤں کو سلام!
ان کی آنکھوں سے چھلکتی ہے ہوس کی مستی
ان کے سینوں میں فروزاں ہیں وہ جنسی شعلے
جن کی اک ایک لپٹ سے ہے بھسم شرم و حیا
قہقہے، ساز کی تانوں میں ڈھلے جاتے ہیں
لمس کی آگ میں سب جسم جلے جاتے ہیں
آنکھ کے ڈوروں میں پوشیدہ ہیں مبہم سے پیام
نئی تہذیب کے شہکار عظیم!
تیری پر کیف و طرب خیز فضاؤں کو سلام
دھڑکنیں تیز ہوئیں شوق کی لے بڑھنے لگی
جسم پر تنگی ملبوس ذرا اور بڑھی
آنکھ میں نشے کی اک لہر ذرا اور چڑھی
لرزش پا سے جھلکنے لگی دل کی لغزش!
دفعتاً جاز کی پرجوش صدا بند ہوئی
روشنی ڈوب گئی پھیل گئی ظلمت شب۔۔۔۔
جسم سے جسم کی قربت جو بجھانے لگی آگ
دوپہر ڈھل گئی جذبات کی ہونے لگی شام
نئی تہذیب کے شہکار عظیم!
تیری پر کیف و طرب خیز فضاؤں کو سلام
جل گیا سینۂ سوزاں میں ہی انساں کا ضمیر
روح کی چیخ فضاؤں میں کہیں ڈوب گئی
رخ تہذیب پسینے میں شرابور ہوا
علم ہے سر بہ گریباں و ادب مہر بہ لب
کس سے اس دور جراحت میں ہو مرہم کی طلب
ملک تہذیب میں چنگیز ہے پھر خوں آشام
نئی تہذیب کے شہکار عظیم!
تیری پر کیف و طرب خیز فضاؤں کو سلام
نظم
نائٹ کلب
سلیم بیتاب