آنکھیں ایک نگار خانہ
جہاں ان گنت چہرے خود کو نقش کر کے
زیست کے سفر پر نکلتے ہیں
اور آنکھیں ان میں وفا کے رنگ بھرتی ہیں
اچانک
جذبوں کے موسم بدلتے ہیں
اور بے اعتباری کی گرد سے اٹے چہرے
جب لوٹتے ہیں
تو پہچانے نہیں جاتے
آنکھیں سب کو ان کی علامتیں بتاتی ہیں
مگر چہرے انکار کی دھند میں چھپ جاتے ہیں
اور پاداش میں دکھوں کے کتنے ہی قافلے
آنکھوں کے ساحل پر پڑاؤ ڈال لیتے ہیں
جہاں سے پانیوں کے ایسے سلسلے پھوٹ نکلتے ہیں
کہ آنکھوں میں نقش سبھی چہرے دھل جاتے ہیں
اور سناٹے تیرنے لگتے ہیں
نظم
نگار خانہ
منیر احمد فردوس