مری دوست اب تم
جہاں ہو وہاں پر
نہ جانے ہواؤں کی رفتار کیا ہے
ستاروں سے آباد
رستوں میں حائل
یہ بادل ہیں کیسے
یہ دیوار کیا ہے
محبت ہے آزاد
لیکن دلوں میں
پرندوں کی طرح
گرفتار کیا ہے
جہاں ہم ہیں شاید
وہاں روز و شب میں
بس اک خواب ہے
اور افق پار کیا ہے

نظم
نظم
ذیشان ساحل