محبت کا سبق آساں تھا لیکن بھلا بیٹھا
میں اک شعلے کے جس سے دور رہتا تھا
بہت نزدیک آ بیٹھا
بدن تو خیر جلنا تھا مگر میں
روح تک اپنی جلا بیٹھا
ستارے توڑ کر لانا بہت آساں تھا
لیکن میں ان کو بہتے پانی میں گرا بیٹھا
پرندے شام ہونے پر چمن میں
آشیاں کے پاس آ پہنچے تھے
میں ان کو اڑا بیٹھا
دریچے سے ہوا آنے لگی تھی
خواب جاگ اٹھے تھے
میں رستے میں آ بیٹھا

نظم
نظم
ذیشان ساحل