سچ سے
گھر نہیں بنتے
میری لکڑی سچ تھی
گھر نہیں کشتی بنی
سچ کی کشتی کو کھیتی ہوئی
میری روح
نہ جانے کن کن پانیوں سے گزر رہی ہے
پانی کی شکل مقرر نہیں
مرنے کا وقت مقرر ہوتا ہے
کشتی کو میری روح سے زیادہ
پانی موافق ہے
دیو دار کی عمر پانی میں بڑھ جاتی ہے
اور دنیا میں
ڈھونگ نہ رچانے والے کی عمر
گھٹ جاتی ہے
موت کے ساحل پہ اترنے کے لیے
میں سچ کی کشتی میں ڈول رہی ہوں
نظم
نظم
شبنم عشائی