ڈھیر ساری
ریت کے نیچے دبی
ایک روح
دیر گئے
ریت ہٹانے کی کوشش میں
اپنے ناخن توڑ بیٹھی
یوں تو
کچھ توڑنا بھی اچھا لگتا ہے
جو ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے
قتل ہو جاتا ہے
ویسے
قتل ہونا ہی جینے کا سچ ہے
اور
اس لمحے کا سچ یہی ہے
کہ صدیوں بعد ایسا واقعہ ہوا تھا
کہ ریت کے ذرے
اس کی آنکھوں میں چبھ جانے سے رہ گئے
دیکھا تو
سامنے بھیڑ تھی
شور و غل تھا
اور ایک کھوکھلی آواز
جو
دور کہیں جا کے
زندگی کا سنتور
چھیڑ رہی تھی
مجھے لگا تھا
اس آواز پہ تمہاری آواز کا سایہ تھا

نظم
نظم
شبنم عشائی