اداسیوں نے
من کے گرداگرد
اک دھواں سا لپیٹ دیا ہے
کالا دھواں روپہلا دھواں
دھویں میں کچھ سوز ہے
چھوٹے رشتوں کی صدا کا
دھویں میں کچھ نور ہے
پرائے اپنوں کے چہروں کا
سوز و نور کی دھند میں
جگر اپنی آنکھیں موند رہا ہے
.....میں
من بھر دھواں پی لیتی ہوں
کسی چارہ ساز کی حاجت نہیں
گاتی ہوں.....

نظم
نظم
شبنم عشائی