صحرائے ہستی
میں
ایک چیز
آوارہ بھٹکتی رہی
مر گئی
پیاس سے
زرد رو
چمن میں
گرد و غبار
انگڑائیاں
لے رہا ہے
خشک پتے
منتظر ہیں
جنبش یک تار نفس کے
اور
دیدہ نم
ٹکٹکی باندھے
راستہ
تک رہے ہیں
قاصد کا
جانے کب
رہائی کا پروانہ
آئے گا
گھٹائیں
جھوم کے آتی ہیں
گھر کے
آنگن پر
نہ پوچھو
کیسے رستی ہیں
کھل بھی جاتی ہیں
پر
گھٹائیں
کمرے سے
دور رہتی ہیں
سبزہ
دیوار سے باہر
لہکتا ہے
کمرے میں
صرف
ایک لیمپ
جلتا ہے
موت اور
زندگی
کے درمیاں
فاصلہ بہت
لگتا ہے
میں
موت کے ہمراہ
زندگی کے ساتھ
مر رہی ہوں
خاموشی کی
عادت ڈالو
سکون مل
جائے گا
ہاں
خاموشی
بے آواز خاموشی
ایک بار
الفاظ کو
توڑ دو
معنوں کے
کرب سے
نجات مل جائے گا
ساری جنگیں
آپ ہی آپ
رک جائیں گی
مری آنکھوں
سے اب
الفاظ کی
بوندیں ٹپکتی ہیں
ٹپکنے دو
ٹپکنے دو
نظم
نظم
صفیہ اریب