جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
تارے چھپتے ہیں جھلملا کر
ہے نور سا جلوہ گر فلک پر
بھینی بھینی مہک گلوں کی
اور نغمہ زنی وہ بلبلوں کی
وقت صحرا اور تنگ ہوا ہے
بے مے سب کرکرا مزا ہے
اک چلو کے دینے میں یہ تکرار
اٹھو جاگو سحر ہوئی یار
دریا کی طرف چلے نہانے
غٹ پریوں کے زنان خانے
مرغان چمن یہ نکتہ رانی
چوں برہمنان یہ بید خوانی
نوبت رنگت جمنا رہی ہے
شہنشائے مزہ دکھا رہی ہے
نظم
نظم
رتن ناتھ سرشار