اسے چاہیں تو آہیں
دل کی سب راہیں دھوئیں سے تیرہ و تاریک کر ڈالیں
نگاہیں یوں کراہیں
جیسے تا حد نظر اس کی شعاعیں مرگ آسا جال پھیلا دیں
ہر اک شب سانس کے تاروں کو الجھائے
سحر دم خواب گہ پر کسمپرسی سایہ سایہ اس طرح منڈلائے
پیراہن لہو میں تر بتر جیسے کسی تربت پہ لہرائے
اسے ڈھونڈیں تو رستے
جان کے درپئے
جہازوں کشتیوں سے لہلہاتے زندگی پرور سمندر
برف سے بھر جائیں
ہر جانب ملیں کوہ ندا غول بیاباں
اور کبھی خیموں کی خونی دھجیاں ٹوٹی طنابیں ہڈیاں
ہیبت دلائیں
کارواں کترائیں
جیسے ہم زمیں پر بوجھ ہوں
ہر سمت سدرہ ہے
ستارے خوشبوئیں جگنو ہوائیں سب غلط رستے بتائیں
پاؤں نیزوں پر چلیں
اور وہ تو کیا
دست طلب میں اپنی خاکستر بھی عنقا ہو
اسے پائیں تو سارے محل
گر جائیں ارم اٹھ جائیں
پیڑوں اور دیواروں کے سائے اڑ چلیں
سورج کی کرنیں مڑ چلیں کچھ اور دنیاؤں کی جانب
انگلیاں اٹھیں سناٹوں کی طرح
اور ساتھ چلنا خلق کی عصمت دری جیسے
زمیں عف عف سے فنکاروں سے نیشوں سے بھری جیسے
اسے چاہیں تو کیا
ڈھونڈھیں تو کیسے
پائیں تو پا کر کہاں جائیں
نظم
نظم
محمد اظہار الحق