آؤ
شبنم کے پانی میں جھانکیں
ہواؤں کے اڑتے ہوئے نرم جھونکوں سے کھیلیں
فضاؤں میں بکھرے ہوئے خواب ڈھونڈیں
جو بچپن میں ہم سے
زمانے نے چھینے تھے اور اہل دنیا کی چھت پر
بکھیرے تھے!
لوگوں سے، راہوں سے
اپنی کتابوں سے پوچھتا تھا خوابوں کی دنیا کہاں ہے؟
خدا کو پکاریں
جو ہر شے کے پردے میں پردہ ہے دیکھیں
وہ کس کس کی سنتا ہے
خوابوں میں جھانکیں
کہ خوابوں کے اندر وہ بستی ہے جو
خوش نصیبوں کی بستی ہے، اچھے خدا کے ارادوں کی بستی ہے
شاید وہیں
اپنے بچپن کے چھینے گئے خواب رہتے ہیں ہم سے بچھڑ کر
جدائی کے صدموں کو سہتے ہیں
نظم
نظم
جیلانی کامران