دیر ویراں ہے حرم ہے بے خروش
برہمن چپ ہے مؤذن ہے خموش
سوز ہے اشلوک میں باقی نہ ساز
اب وہ خطبے میں نہ حدت ہے نہ جوش
ہو گئی بے سود تلقین ثواب
اب دلائیں بھی تو کیا خوف عذاب
اب حریف شیخ کوئی بھی نہیں
ختم ہے ہر ایک موضوع خطاب
آج مدھم سی ہے آواز درود
آج جلتا ہی نہیں مندر میں عود
کیا قیامت ہے یکایک ہو گیا
محفل زہاد پر طاری جمود
رب برحق خالق عالی جناب
ہو گئے اپنے مشن میں کامیاب
سلسلہ رشد و ہدایت کا ہے ختم
آسماں سے اب نہ اترے گی کتاب
مر گیا اے وائے شیطاں مر گیا

نظم
نظم
گوپال متل