EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

عادل منصوری

;

تبوک آواز دے رہا ہے
زمیں سے اب جو چپک رہے گا

منافقوں میں شمار ہوگا
لہو کے سورج کی لال آنکھیں

اداس لمحوں کو سونگھتی ہیں
کھجور پکنے کا وقت بھی ہے

سواریاں اور سفر کا سامان ساتھ لے لو
خدا بڑا ہے

بہت بڑا ہے
خدا بڑا ہے

تمہارے اونٹوں کی گردنوں سے
تمام دنیا میں نور پھیلے

تمہارے گھوڑوں کی ہنہناہٹ
تمہاری منزل کی راہ کھولے

بلندیوں کی طرف بلاتا ہے آج کوئی
یہ دھوپ سائے کے ساتھ ہوگی

ہوا میں ہنستا نشان دیکھو
وہ اڑتے پرچم کی شان دیکھو

ابھی ابھی قافلہ گیا ہے
تبوک آواز دے رہا ہے

میں اپنے گھوڑے کی باگ موڑوں
میں اپنے گھر کی طرف نہ جاؤں