EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

عادل منصوری

;

خوں پتھر پہ سرک آیا
گہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا

جل کنیا کے جسم پہ کالے سانپ کا سایہ لہرایا
دریا دریا زہر چڑھا

گیلی ریت پہ دھوپ نے اپنا نام لکھا
مٹھی میں مچھلی کا آنسو سوکھ گیا

گھوڑوں کی ٹاپوں سے کمرہ گونج اٹھا
خرگوشوں کی آنکھوں سے سورج نکلے

پھر دریا کی ناف میں کشتی ڈوب گئی
کاغذ کے صحرا میں پانی مت ڈھونڈو

اہرام کے دروازے کب کھلتے ہیں
ہینگر پہ کپڑے کی لاش لٹکتی ہے

پربت پربت ننگی روح بھٹکتی ہے
مجھ سے یہ پوچھو لوگو میں کیا ہوں

زنگ آلودہ شہر پہ تھوکنے آیا ہوں