برہنہ سر ہیں برہنہ تن ہیں برہنہ پا ہیں
شریر روحیں
ضمیر ہستی کی آرزوئیں
چٹکتی کلیاں
کہ جن سے بوڑھی اداس گلیاں
مہک رہی ہیں
غریب بچے کہ جو شعاع سحر گہی ہیں
ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں
وہ منزلیں جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں
ترس رہی ہیں
انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں
حسین خوابوں
کی دھندلی دنیائیں جو سرابوں
کا روپ دھارے
ہمارے احساس پر شرارے
انڈیلتی ہیں
انہیں کی آنکھوں میں کھیلتی ہیں
انہی کے گم سم
اداس چہروں پر جھلملاتے ہوئے تبسم
میں ڈھل گئے ہیں ہمارے آنسو ہماری آہیں
طویل تاریکیوں میں کھو جائیں گے جب اک دن
ہمارے سائے
اس اپنی دنیا کی لاش اٹھائے
تو سیل رواں
کی کوئی موج حیات ساماں
فروغ فردا
کا رخ پہ ڈالے مہین پردا
اچھل کے شاید
سمیٹ لے زندگی کی سرحد
کے اس کنارے
پہ گھومتے عالموں کے دھارے
یہ سب جا ہے بجا ہے لیکن
یہ توتلی نو خرام روحیں کہ جن کی ہر سانس انگبیں
اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں ناز بالیدگی نہیں ہے
تو بہتی ندیوں
میں آنے والی ہزار صدیوں
کا یہ تلاطم
سکوت پیہم کا یہ ترنم
یہ جھونکے جھونکے
میں کھلتے گھونگھٹ نئی رتوں کے
تھکی خلاؤں
میں لاکھ ان دیکھی کہکشاؤں
کی کاوش رم
ہزار نا آفریدہ عالم
تمام باطل
نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل
اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں ناز بالیدگی نہیں ہے
نظم
نژاد نو
مجید امجد