EN हिंदी
نیا سفر | شیح شیری
naya safar

نظم

نیا سفر

محمود ایاز

;

تعلقات کا افسوں کدورتوں کا غبار
دلوں کا بغض، محبت کے دائروں کا حصار

مسرتوں کا ہر اک رنگ، غم کا ہر لمحہ
گزرتی موج کے مانند ابھر کے ڈوب گیا

خلوص و مہر و عداوت کی ساری زنجیریں
پلک جھپکنے کی مہلت میں جل کے راکھ ہوئیں

نہ کٹنے والے کٹھن دن خیال و خواب ہوئے
نہ آنے والے جو دن تھے وہ آ کے بیت گئے

غم فراق شب انتظار صبح وصال
بس ایک گرد زمانہ محیط ہے سب پر

یہ صبح نو ہے کہ شام حیات کی منزل
یہ اختتام سفر ہے کہ ابتدائےسفر