ابھی اک سال گزرا ہے یہی موسم یہی دن تھے
مگر میں اپنے کمرے میں بہت افسردہ بیٹھا تھا
نہ کوئی سانولے محبوب کی یادوں کا افسانہ
نہ ایوان زمستاں کی طرف جانے کی کچھ خواہش
کسی نے حال پوچھا تو بہت ہی بے نیازی سے
کہا جی ہاں خدا کا شکر ہے میں خیریت سے ہوں
کوئی یہ پوچھتا کیوں آج کل کوئی غزل لکھی
نہ جانے بات کیا ہے ان دنوں کچھ ایسا لگتا ہے
تمہاری ہر غزل میں میر کا انداز ملتا ہے
ہر اک مصرعے سے جیسے دھیمی دھیمی آنچ اٹھتی ہے
تمہارے شعر پڑھ کر جانے کیوں محسوس ہوتا ہے
کہ کوئی ساز پر مدھم سروں میں گنگناتا ہے
مگر اک بات پوچھوں تم خفا تو ہو نہ جاؤگے
یہ آخر کیا سبب ہے آج کل نظمیں نہیں لکھتے
تمہاری آپ بیتی بھی ابھی تک نا مکمل ہے
اسے تو ناقدان فن نے سنتے ہی سراہا ہے
میں سب سنتا مگر یہ دل ہی دل میں سوچتا رہتا
مرے احباب کیا جانیں کہ مجھ پر کیا گزرتی ہے
مرے افکار پہ یہ کیسی ویرانی سی چھائی ہے
بہت کچھ سوچتا ہوں پھر بھی اب سوچا نہیں جاتا
بہت کچھ چاہتا ہوں پھر بھی کوئی بس نہیں چلتا
مگر اس بے بسی میں بھی مرے دل کی یہ حالت تھی
کبھی جب کوئی اچھی چیز پڑھنے کے لیے ملتی
تو پہروں روح پر اک وجد کی سی کیفیت ہوتی
رگوں میں میری جیسے خوں کی گردش تیز ہو جاتی
لہو کا ایک اک قطرہ یہ کہتا میں تو زندہ ہوں
مری پامالیوں میں پل رہی ہے اک توانائی
یہی عالم رہا تو جانے میں کس روز اٹھ بیٹھوں
بسنت آیا تو یوں آیا کہ میں بھی جیسے اٹھ بیٹھا
سویرا ہوتے ہی ہر سمت سے جھونکے ہواؤں کے
نئی خوشبو لیے مجھ کو جگانے کے لیے آئے
جدھر بھی آنکھ اٹھاتا ہوں شفق کی مسکراہٹ ہے
وہی سورج ہے لیکن اور ہی کچھ جگمگاہٹ ہے
نہ جانے کیسے کیسے پھول اب مجھ کو بلاتے ہیں
نہ جانے کتنے کتنے رنگ سے دل کو لبھاتے ہیں
فضا میں دور تک پھیلے ہوئے وہ کھیت سرسوں کے
یہ کہتے ہیں کہ اب ارماں نکالو اپنے برسوں کے
تمہارے سامنے پھیلا ہوا میدان سارا ہے
کوئی آواز دیتا ہے کہ آؤ تم ہمارے ہو
مری دھرتی کے بیٹے میری دنیا کے دلارے ہو
تمہاری آنکھ میں جو خواب سوئے ہیں وہ میرے ہیں
تمہارے اشک نے جو بیج بوئے ہیں وہ میرے ہیں
اسی وادی میں پھر سے لوٹ کر اب تم کو آنا ہے
تمہاری ہی یہ بستی ہے تمہیں کو پھر بسانا ہے
اب اس بستی میں رکھتے ہی قدم کچھ ایسا لگتا ہے
کہ اس کا ذرہ ذرہ پتہ پتہ کچھ نیا سا ہے
ہر اک رستے پہ جیسے کچھ نئے چہرے سے ملتے ہیں
یہی جی چاہتا ہے جو ملے اب اس سے یہ پوچھیں
تمہارا نام کیا ہے؟ تم کہاں کے رہنے والے ہو
کچھ ایسا جان پڑتا ہے کہ پہلے بھی ملے ہیں ہم
رہے ہیں ساتھ یا اک دوسرے کو جانتے ہیں ہم
اگر تم ساتھ تھے تو تم بھی شاید دوست تھے میرے
مجھے یاد آیا دونوں ساتھ ہی کالج میں پڑھتے تھے
وہ سارے دوستوں کا جمع ہونا میرے کمرے میں
وہ گپ شپ قہقہے وہ اپنے اپنے عشق کے قصے
وہ میرس روڈ کی باتیں وہ چرچے خوب رویوں کے
کبھی آوارہ گردی اپنی ان ویران سڑکوں کی
کبھی باتوں میں راتیں کاٹنا سنسان جاڑوں کی
کبھی وہ چاندنی میں اپنا یوں ہی گھومتے رہنا
کبھی وہ چائے کی میزوں پہ گھنٹوں بیٹھنا سب کا
وہ باتیں علم و حکمت کی کبھی شکوہ شکایت کی
تمہیں تو یاد ہوگا ان میں ہی اک دوست شاعر تھا
ذرا دیکھو تو مجھ کو غور سے شاید وہ میں ہی تھا
بہت دن میں ملے ہیں ہم تو آؤ آج جی بھر کر
ہنسیں بولیں کہیں آوارہ گردی کے لیے نکلیں
چلیں اور چل کے سارے دوستوں کو پھر بلا لائیں
سجائیں آج پھر محفل کہیں پینے پلانے کی
میں تم کو آج اپنی کچھ نئی باتیں بتاؤں گا
میں تم کو آج اپنی کچھ نئی نظمیں سناؤں گا
نظم
نیا جنم
خلیلؔ الرحمن اعظمی