برسوں سے یہ بام و در کہ جن پر
مہکی ہوئی صبح کے ہیں بوسے
یادوں کے یہی نگر کہ جن پر
سجتے ہیں یہ شام کے دھندلکے
یہ موڑ یہ رہ گزر کہ جن پر
لگتے ہیں اداسیوں کے میلے
ہیں میرے عزیز میرے ساتھی
کب سے مرا آسرا رہے ہیں
سنتے ہیں یہ میرے دل کی دھڑکن
جیسے یہ مجھے سکھا رہے ہیں
ہنس بول کے عمر کاٹ دینا
میرے یہی دست و پا رہے ہیں
برسوں سے یہ میری زندگی ہیں
برسوں سے میں ان کو جانتا ہوں
ہیں میری وفا پہ یہ بھی نازاں
ہر بات میں ان کی مانتا ہوں
لیکن مرے دل کو کیا ہوا ہے
میں آج کچھ اور ٹھانتا ہوں
لگتا ہے یہ شہر دلبراں بھی
ہے پاؤں کی میرے کوئی زنجیر
بس ایک ہی رات ایک دن ہے
ہر روز وہی پرانی تصویر
ہر صبح وہی پرانے چہرے
ہو جاتے ہیں شام کو جو دلگیر
اب اور کہیں سے چل کے دیکھیں
کس طرح سحر کی نرم کلیاں
کرنوں کا سلام لے رہی ہیں
جاگ اٹھتی ہیں کس طرح سے گلیاں
سب کام پہ ایسے جا رہے ہیں
جیسے کہ منائیں رنگ رلیاں
دیکھیں کہیں شام کو نکل کر
ڈھلتے ہوئے اجنبی سے سائے
یوں ہاتھ میں ہاتھ لے رہے ہوں
جیسے کہیں گھاس سرسرائے
اس طرح سے پاؤں چل رہے ہوں
جیسے کئی پی کے لڑکھڑائے
آنے ہی کو ہوں ملن کی گھڑیاں
سورج کہیں غم کا ڈوبتا ہو
مہکی ہو کہیں پہ شب کی دلہن
کچنار کہیں پہ کھل رہا ہو
ہر گام پہ اک نیا ہو عالم
ہر موڑ پہ اک نیا خدا ہو
نظم
نیا عہد نامہ
خلیلؔ الرحمن اعظمی