یہ رنگ و بو یہ نظارے یہ بزم آرائی
نیاز و ناز و ادا حسن عشق رعنائی
شباب نظم و غزل در پئے شکیبائی
مجھے یہ ساعت گذراں کہاں پہ لے آئی
قرار دیکھ لیا اضطرار دیکھ لیا
غم حبیب غم روزگار دیکھ لیا
اداس چہروں پہ اڑتا غبار دیکھ لیا
نوائے شوق کو بے اختیار دیکھ لیا
خزاں گزیدہ سا رنگ بہار دیکھ لیا
گماں دریدہ یقین تار تار دیکھ لیا
تمام عشوۂ حسن نگار دیکھ لیا
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا
رہا نہ خود کا بھی پھر اعتبار دیکھ لیا
کبھی جو دیکھا نہ تھا بار بار دیکھ لیا
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
نوشتۂ پس دیوار کیا ہے کیا معلوم
نظم
نوشتۂ پس دیوار
سرور عالم راز