حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا
تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
تری چین جبیں خود اک سزا قانون فطرت میں
اسی شمشیر سے کار سزا لیتی تو اچھا تھا
یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت
تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا
دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا
ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہو
میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا
اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل
بھری محفل میں آکر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے
اگر تو ساز بے داری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
عیاں ہیں دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے
انہیں تو رنگ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا
سنانیں کھینچ لی ہیں سرپھرے باغی جوانوں نے
تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
نظم
نوجوان خاتون سے
اسرار الحق مجاز