کس ناز کس ادا سے نسیم سحر چلی
بو کی طرح رواں ہوئی مثل نظر چلی
باغوں کا رخ کیا تو گراتی ثمر چلی
شبنم کی پتیوں کو لٹاتی گہر چلی
پھولوں کے جام بادۂ مستی سے بھر چلی
اہل چمن کو خواب سے بیدار کر چلی
روئے چمن کو دیکھ کے زینت مچل پڑی
سبزے کو چھیڑ چھاڑ کے لہرا کے چل پڑی
تختے گلوں کے چشم زدن میں کھلا چلی
خوشبو کے اور شمیم کے دریا بہا چلی
سجدے میں شکر کے لئے شاخیں جھکا چلی
چڑیوں کو شاخ شاخ پہ جھولا جھلا چلی
پتوں کو لڑکھڑاتی ہوئی جا بہ جا چلی
بزم طرب کا رنگ چمن میں جما چلی
سنبل کو زلف ناز کو سلجھا کے چل پڑی
دامن کو خار خار سے الجھا کے چل پڑی
نظم
نسیم سحر
میلہ رام وفاؔ