EN हिंदी
نسب زادے | شیح شیری
nasab-zade

نظم

نسب زادے

زبیر رضوی

;

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے

وہ جب پیدا ہوئے
ان کے قبیلے نے

کئی راتیں
مبارک ساعتوں کے جشن میں کاٹیں

خدا کی برتری کے گیت گائے
اور غلاموں باندیوں کو قید سے آزاد کر ڈالا

کئی دن ان کے خیمے
چیختی خوشیوں کا گہوارہ رہے

ان کے بزرگوں نے
غریبوں اور محتاجوں کو

جنس بے بہا بانٹی
بہت سے جانور ذبح کیے

سارے قبیلے نے
کئی دن تک

کنوؤں سے ڈول کھینچے
راہ گیروں کی دعائیں لیں

وہ سب نو زائیدوں کو گود میں لے کر
رجز گاتے

سلف کے کارناموں کا بیاں کرتے
وہ جب پیدا ہوئے

فرخندہ طالع تھے
مگر اک دن

نسب زادوں نے
اپنے اصطبل کھولے

صبا رفتار گھوڑوں کے بدن پر چابکیں ماریں
ہوا کے دوش پر نیزے اچھالے

نیک طینت طائفوں کی بستیاں تاراج کر آئے
وہ پہلی رات تھی

ان کے قبیلے کی کوئی عورت
نسب بردار اپنے شوہروں کی گود میں آ کر نہیں سوئی