اپنا ہی سا اے نرگس مستانہ بنا دے
میں جب تجھے جانوں مجھے دیوانہ بنا دے
ہر قید سے ہر رسم سے بیگانہ بنا دے
دیوانہ بنا دے مجھے دیوانہ بنا دے
اک برق ادا خرمن ہستی پہ گرا کر
نظروں کو مری طور کا افسانہ بنا دے
ہر دل ہے تری بزم میں لبریز مئے عشق
اک اور بھی پیمانہ سے پیمانہ بنا دے
تو ساقی مے خانہ بھی تو نشہ و مے بھی
میں تشنۂ ہستی مجھے مستانہ بنا دے
اللہ نے تجھ کو مے و مے خانہ بنایا
تو ساری فضا کو مے و مے خانہ بنا دے
تو ساقئ مے خانہ ہے میں رند بلا نوش
میرے لئے مے خانہ کو پیمانہ بنا دے
یا دیدہ و دل میں مرے تو آپ سما جا
یا پھر دل و دیدہ ہی کو ویرانہ بنا دے
قطرے میں وہ دریا ہے جو عالم کو ڈبو دے
ذرے میں وہ صحرا ہے کہ دیوانہ بنا دے
لیکن مجھے ہر قید تعین سے بچا کر
جو چاہے وہ اے نرگس مستانہ بنا دے
عالم تو ہے دیوانہ جگر! حسن کی خاطر
تو اپنے لئے حسن کو دیوانہ بنا دے
کب تک نگہ یار نہ ہوگی متبسم
تو اپنا ہر انداز حریفانہ بنا دے
منکر تو نہ بن حسن کے اعجاز نظر کا
کہنے کے لئے اپنے کو بیگانہ بنا دے
جب تک کرم خاص کا دریا نہ امنڈ آئے
تو اور بھی حال اپنا سفیہانہ بنا دے
بت خانے آ نکلے تو کعبہ کی بنا ڈال
کعبے میں پہنچ جائے تو بت خانہ بنا دے
جو موج اٹھے دل سے ترے جوش طلب میں
سر رکھ کے وہیں سجدۂ شکرانہ بنا دے
جب مائل الطاف نظر آئے وہ خودبیں
تو ہر نگہ شوق کو افسانہ بنا دے
کونین بھی مل جائے تو دامن کو نہ پھیلا
کونین کو بھولا ہوا افسانہ بنا دے
پھر عرض کر اس طرح جگرؔ شوق و ادب سے
بے باک اگر جرأت رندانہ بنا دے
تجھ کو نگہ یار! قسم میرے جنوں کی
ناصح کو بھی میرا ہی سا دیوانہ بنا دے
میں ہوں ترے قدموں میں مجھے کچھ نہیں کہنا
اب جو بھی ترا لطف کریمانہ بنا دے
نظم
نرگس مستانہ
جگر مراد آبادی